۴ – ماده توانائی اور توانائی ماده میں تحول پذیر هے اسی طرح کائنات ایک ایسی توانائی میں بدل جاتی هے جسےحرکت سے تعبیر کیا جاتا هے۔ اسی بنا پر آج فلسفه بھی اپنے مسلمه اصولوں کے مطابق ان نظریات کو محفوظ کرنے کے ساتھ جوهری اور جسمانی انواع کو ثابت کرتا هے۔
بنابراین جسمیت ترکیب کا باعث بنتی هے اور هر جدید ترکیب جدید خواص کو ایجاد کرتی هے یهاں تک که ترکیبی سلسله اپنے اختتام کو پهنچتا هے۔ هر جدید ترکیب جدید بسیط خواص کی حامل ایک مخصوص جوهری نوعی صورت رکھتی هے۔ کئی انواع کے مجموعے سے جدید نوع کے وجود کا باعث بنتی هے، ماده هے اسی طرح جدید نوعی صورت ان کی نوعی صورت اور ماده اورصورت کا مجموعه ایک جدید نوع هے ۔
لیکن وه فرضیه جو ماده کو بهت ساری توانائیوں کا مجموعه اور ان کے تراکم کا نتیجه فرض کرتی هے، چونکه ابھی تک توانائی کا تراکم هونا اور اس کی جسامت کی پیدائش کے راز سے پرده نهیں اٹھایا گیا جسم کے مخصوص جوهری نوعیت جو حادثه نوعی کے ابتدائی نوع شمار هوتی هے اپنے اعتبار میں باقی هے۔
عرض کی اقسام
قدیم مشّائی فلاسفرزجن میں سرفهرست یونان کے مشهور فلسفی ارسطاطالیس اور اسلامی فلسفه کے بزرگان مانند فارابی[۱۲۶]، ابن سینا اور صدرالمتألهین وجود کو ثابت کرنے کے بعد عرض کی ابتدائی تقسیم میں نو-مقولوں کا تذکره کرتے هیں جو اعراض کے اجناس عالیه هیں ۔ بنابراین، عرض کو مندرجه ذیل نو قسموں میں تقیسم کرتے هیں:کیف، کم، متی، این، وضع، ملک، فعل، انفعال اور اضافه۔
البته یه تقسیم بندی ماهیات کی خصوصیات میں کئے گئے استقراء پر مبنی هے۔ علاوه براین، سائنس اور صنعت میں پیشرفت کے ذریعے بهت سارے خواص کشف هوئے هیں جو اس زمانے میں کشف نهیں هوئے تھے اور مذکوره تقیسمات بھی ان خواص کی پیدائش کے تاثیر سے خالی نهیں هے۔
اور چونکه آخری سات مقولات(تیسرے سے نویں تک) میں عرضی نوعیتوں کی تشخیص اور تعداد میں بحث زیاده اهمیت کی حامل نهیں هے لهذا ان سے گفتگو کرنے سے پرهیزکرتے هیں۔
صرف اتنا که مطلق “عرض” تین کلی انواع پر تقسیم هوتا هے: “کیفیت، کمیّت اور نسبت ”
۱ – “کیفیت” ایک ایسا عرض هے جو خودبخود تقسیم اور نسبت کو قبول نهیں کرتا هے۔ جیسے خط کا ترچھا اور سیدا هونا۔
۲ – “کمیّت” ایک ایسا عرض هے جو خود بخود قابل تقسیم هے۔ مانند خط، سطح، جسامت، عدد اور زمان۔
۳ – “نسبت مقولی” ایک ایسا عرض هے جو دو یا دو سے زیاده ماهیتوں کے درمیان موازنے سے پیدا هوتا هے۔ مانند دوری اور نزدیکی کی نسبت اور برابری اور متوازی هونا۔
البته کلی کی ان تین قسموں کا تبائن کسی سے مخفی نهیں هے۔
اس مقالے میں ثابت هونے والے مسائل :
۱ – خارج میں بهت ساری ماهیات پائی جاتی هیں
۲ – ماهتوں میں بھی ترکیب پائی جاتی هے۔
۳ – ماهیات کی ترکیب جنس اور فصل کے ذریعے هے۔
۴ – اجناس نهایه ًاجناس عالیه تک منتهی هوتے هیں۔
۵ – احناس عالی فصول کے ذریعے نوعیت پیدا کرتے هیں۔
۶ – ماهیت آخری فصل کے ملحق هونے سے ختم هوتی هے۔
۷ – جنس فصل کے بغیر اور فصل جنس کے بغیر نهیں هو سکتا هے۔
۸ – ماهیت جوهر اور عرض پر تقسیم هوتی هے اور دونوں خارج میں موجود هیں۔
۹ – جو هر چار کلی انواع رکھتا هے۔
۱۰ – عرض تین کلی قسموں میں تقسیم هوتا هے۔
فهرست منابع
-
- قرآن مجید ، ترجمه آیت الله ناصر مکارم شیرازی۔
-
- ابنسینا، حسین بن عبد اللہ، الشفاء، قم، منشورات آیهْْ الله مرعشی نجفی، ۱۴۰۵ه.ق۔
-
- ارانی، ڈاکٹر محمد تقی ، جبر و اختیار، چاپ دوم، شماره ثبت ۸۲۴/۱۳۵۸، تهران۔
-
- ارانی، ڈاکٹر محمد تقی ، ماتریالیسم دیالکتیک، چاپ دوم، شماره ثبت ۸۲۴/۱۳۵۸، تهران۔
-
- ارسطو، مابعدالطبیعه مترجم: محمدحسن لطفی تبریزی، چاپ سوم سال ۱۳۹۰۔
-
- آئنسٹائن، البرٹ،خلاصه نظریه فلسفی اینشتن، ترجمه احمد آرام۔
-
- بندعلی، سعید،مهر استاد، نشر اسراء، ۱۳۹۰ه.ش۔
-
- تاریخ فلسفه غرب، ترجمهٔ عبدالحسین آذرنگ، تهران: انتشارات ققنوس، ۱۳۸۷ه.ش۔
-
- جیمز هاپووڈ جینز، راز آفرینش یا جهان شگفت، ترجمه مهندس رضا۔
-
- الحاج مولوی فیروز الدین ، اردو جامع فیروز الغات، فیروز سنز لاهور پاکستان،بی تا۔
-
- راسل، برتراند، تاریخ فلسفه غرب، ترجمه نجف دریابندی، چاپ اول، ۱۳۸۸ه.ش۔
-
- سروش، عبدالکریم،یادنامه شهید مطهری، چاپ اول، تهران، ۱۳۶۰ه.ش۔
-
- شهاب الدین سهروردی، شیخ اشراق،حکمت اشراق، چاپ هشتم، ترجمه و شرح سید جعفر سجادی، نشر دانشگاه تهران۔
-
- شهید مطهری، مرتضی ،محموعه آثار، چاپ ۱۳، ۱۴۳۳ه.ق، انتشارات صدرا، قم۔
-
- شیرازی، محمد صدرالدین ملا صدرا، الاسفار، تهران، ۱۳۸۳ق.
-
- شیرازی،سید رضی الدین، شرح منظومه حکیم شبزواری، چاپ اول، زمستان۱۳۷۸ه.ش، تهران، انتشارات حکمت۔
-
- طباطبائی، سید محمد حسین ،اصول فلسفه و روش رئالیسم ۵ جلدی، چاپ۱۸، ۱۴۳۴ه.ق، انتشارات صدرا، تهران۔
-
- فروغی، محمد علی، سیر حکمت در اروپا، انتشارات کتابفروشی زوار ، تهران، ۱۳۴۴ه.ش۔
-
- قاضی عضوالدین ایجی،عبدالرحمان بن احمد، المواقف فی علم الکلام ، مکتب سعدین بیروت، بی تا۔
-
- معلمی، حسن، تاریخ فلسفه اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۳۲ه.ق،مرکز بین المللی ترجمه و نشر المصطفی۔
-
- موسوی بجنوردی ، محمدکاظم، دائره المعارف بزرگ اسلامی، ناشر: مرکز دایره المعارف-۱۳۸۴ه.ش۔
-
- ناصری، حمید رضا، و امیر محمد، ستوده، پاره ای از خورشید، موسسه نشرو تحقیق ذکر،۱۳۷۸ه.ش۔
-
- نقوی، سید علی رضا، فرهنگ جامع فارسی به انگلیسی و اردو، رایزنی فرهنگی سفارت ایران اسلام آباد پاکستان،چاپ اول،۱۳۷۲ه.ش۔
-
- واثقی ،محمد حسین،مصلح بیدار، تهران، ۱۳۷۸ه.ش۔
- ویل دورانت، تاریخ فلسفه غرب، ترجمه عباس زریاب خوئی، چاپ تابان، تهران، ۱۳۳۵ه.ش۔